Wednesday, October 6, 2010

abut me

چنانچہ آپ نے صفا سے ابتدا کی۔ آپ اس ( صفا) پر چڑھے حتی کہ بیت اللہ پر نظر پڑی۔ اللہ کی تکبیر و تہلیل اور حمد فرمائی ( اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ اور الحمدللہ ) پھر فرمایا: ( لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت وھو علی کل شئی قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ انجز وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ) ‘‘اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کی تعریفیں ہیں، وہ زندہ کرتا اور موت دیتا ہے۔ اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اسی ایک (معبودِ حقیقی) نے ( دشمنوں کی سب) جماعتوں کو شکست دی۔ ‘‘ پھر ان ( الفاظ کو پہلی بار اور دوسری بار پڑھنے ) کے درمیان دعا مانگی۔ تین بار ایسے ہی کیا۔ پھر اتر کر مروہ کی طرف چلے حتی کہ جب آپ کے قدم نشیب میں پہنچے تو وادی کے نشیبی حصے میں دوڑے، پھر جب (آپ کے قدم ) بلند جگہ پہنچے تو آپ ( عام رفتار سے) چل کر مروہ پر پہنچے ۔ مروہ پر بھی اسی طرح کیا۔ ( تکبیر و تحمید اور تہلیل کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ۔۔۔۔ پڑھا) جس طرح صفا پر کیا تھا۔( اسی طرح سعی پوری کی۔) جب مروہ پر آپ کے چکر پورے ہوئے تو فرمایا: ’’اگر مجھے اپنے معاملے کے بارے میں پہلے وہ بات معلوم ہوتی جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا اور اس ( طواف وسعی ) کو عمرہ بنا دیتا، لہذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی( قربانی کا جانور) نہیں، اسے چاہیے کہ احرام کھول دے اور اسے عمرہ بنالے۔ ‘‘ چنانچہ سب لوگوں نے احرام کھول دیے اور بال کٹوا لیے۔ سوائے نبی ﷺ کے اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے۔
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر کہا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ حکم اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کےلیے؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور دوبار فرمایا: ’’عمرہ حج میں اس طرح داخل ہوگیا ہے۔ ( صرف اس سال کے لیے) نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ‘‘ علی رضی اللہ عنہ ( یمن سے) نبی ﷺ کے اونٹ ( قربانی کے لیے) لے کر حاضر ہوئے تو دیکھا فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے احرام کھول دیا ہے اور انہوں نے رنگ دار کپڑے پہن رکھے ہیں اور سرمہ لگایا ہوا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس کام پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا: مجھے ابا جان نے یہ حکم دیا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ عراق میں ( یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرمایا کرتے تھے: میں فاطمہ کے اس عمل کی شکایت کرنے اور انہوں نے جو بات بتائی تھی اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے فتوی پوچھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے ان کے اس کام پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ سچ کہتی ہے، وہ سچ کہتی ہے۔ تم نے جب حج کا احرام باندھا تھا تو کیا کہا تھا؟‘‘ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کہا تھا: اے اللہ! میں اسی چیز کا احرام باندھتا ہوں جس کا احرام تیرے رسول ﷺ نے باندھا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے ساتھ تو قربانی ہے، لہٰذا تم بھی احرام نہ کھولو۔ ‘‘ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: قربانی کے وہ جانور جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے اور وہ جانور جو نبی ﷺ مدینہ سے لائے تھے، ان کی مجموعی تعداد سو تھی۔ پھر نبی ﷺ کے سوا اور جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے ان کے سوا سب لوگوں نے احرام کھول دیا اور بال کٹوالیے۔ پھر جب ترویہ کا دن (۸ ذوالحجہ) آیا اور لوگ منیٰ کی طرف چلے ، تب انہوں نے حج کا احرام باندھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی سوار ہوئے( اور منیٰ جا پہنچے) اور آپ نے منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں۔ پھر ( فجر کی نماز کے بعد) کچھ دیر ٹھہرے رہے حتی کہ سورج نکل  آیا اور آپ کے حکم سے نمرہ مقام میں آپ کے لیے بالوں کا ( بکریوں کے بالوں سے بنا ہوا) ایک خیمہ لگا دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ (منیٰ سے) روانہ ہوئے تو قریش کو یقین تھا کہ آپ مشعر حرام یا مزدلفہ میں رک جائیں گے، جسیے زمانہ جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے حتی کہ عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ کو نمرہ میں خیمہ لگا ہوا ملا۔ آپ وہاں تشریف فرما ہوئے۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ کے حکم سے ( آپ کی اونٹنی ) قصواء پر کجاوہ کسا گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں تشریف لے آئے۔ ( وہاں) لوگوں سے خطاب فرمایا۔ ( اس میں) فرمایا: ’’تمہارے خون اور تمہارے مال ایک دوسرے کے لیے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح تمہارے اس شہر ( مکہ) میں اس مہینے (ذوالحجہ) کا یہ (حج کا) دن۔ سنو! جاہلی رواج کی ہر چیز میرے ان قدموں تلے روندی گئی۔ دور جاہلیت میں ہو جانے والے قتل سب معاف ہیں۔ ( ان کا بدلہ نہیں لیا جائےگا۔) اور سب سے پہلے میں ربعہک بن حارث کا خون معاف کر تا ہوں۔ یہ ( دودھ پیتا بچہ) قبیلہ بنی سعد میں پرورش پا رہا تھا اور قبیلہ بنی ہذیل نے اسے قتل کر دیا تھا۔ زمانہ جاہلیت کے سب سود معاف ہیں۔ اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا یعنی عباد بن عبدالمطلب کا سود معاف کر تا ہوں۔ وہ سب کا سب معاف ہے۔ عورتوں کےبارے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے انہیں اللہ کی ذمہ داری پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے نام پر ان کی عصمت کو اپنے لیے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنے دیں جو تمہیں نا پسند ہے۔ اگر وہ یہ حرکت کریں تو انہیں مارو لیکن سخت مار نہ ہو۔ اور تم پر ان کا یہ حق ہے کہ مناسب انداز سے انہیں خوراک اور لباس مہیا کرو۔ اور میں نے تمہارے اندر وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو ہر گز گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ اللہ کی کتاب ہے۔ اور تم سے ( قیامت کے دن) میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے؟ ‘‘ حاضرین نے عرض کیا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے ( پورا دین) پہنچا دیا۔ ( اپنا فرض پوری طرح ) ادا کر دیا، اور ( امت کی) خیر خواہی کی۔ نبی ﷺ نے انگشتِ شہادت آسمان کی طرف بلند کی اور لوگوں کی طرف جھکائی اور تین بار فرمایا: ’’اے اللہ! گواہ رہ! اے اللہ! گواہ رہ۔ ‘‘اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو نبی ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی، پھر ( بلال رضی اللہ عنہ نے) اقامت کہی تو نبی ﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی۔ دونوں نمازوں کے درمیان آپ ﷺ نے کوئی ( سنت یا نفل) نماز ادا نہیں فرمائی۔ اس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ سوار ہو کر (عرفات میں) وقوف کے مقام پر تشریف لے گئے۔ آپ نے چٹانوں کی طرف اپنی اونٹنی کا پیٹ ( اور پہلو ) کیا اور حبل مشاة (ٹیلے) کو اپنے سامنے کیا اور قبلے کی طرف منہ کیا۔ ( اور ذکر و دعا میں مشغول ہوگئے) آپ برابر وہاں ٹھہرے رہے حتی کہ سورج غروب ہوگیا اور تھوڑی سی سرخی بھی کم ہوگئی تو آپ نے سواری پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ ( عرفات سے) روانہ ہوئے تو آپ نے قصواء کی مہار بہت زیادہ کھینچ رکھی تھی حتی کہ اس کا سر آپ کے کجاوے کی اگلی لکڑی سے جا لگا۔ آپ دائیں ہاتھ سے اشارہ کر کے فرما رہے تھے: ’’اے لوگو! آرام سے چلو۔ آرام سے چلو۔‘‘ جب راستے میں کوئی ٹیلا آتا تو رسول اللہ ﷺ اونٹنی کی مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ ( ٹیلے پر آسانی سے) چڑھ جائے۔ پھر آپ مزدلفہ تشریف لائے۔ وہاں ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کیں۔ اور ان کے درمیان کوئی ( سنت یا نفل) نماز نہیں پڑھی۔ پھر رسول اللہ ﷺ لیٹ گئے حتی کہ صبح صادق ہو گئی۔ جب واضح طور پر صبح طلوع ہوگئی تو آپ نے اذان و اقامت کہلوا کر فجر کی نماز ادا کی، پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ ﷺ قصواء پر سوار ہو کر مشعر حرام تشریف لے گئے۔ آپ اس کے اوپر تشریف لے گئے اور اللہ کی حمد اور تکبیر و تہلیل میں مشغول ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ یہاں ٹھہرے رہے حتی کہ خوب روشنی ہوگئی، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے یہاں سے روانہ ہوگئے۔ آپ نے اپنے پیچھے ( اونٹنی پر) فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو سوار کیا۔ وہ خوبصورت بالوں والے ، گورے چٹے اور خوش شکل آدمی تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے تو کچھ عورتیں ( اونٹوں پر سوار) تیزی کے ساتھ پاس سے گزریں، فضل رضی اللہ عنہ انہیں دیکھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے( ان کا چہرہ) دوسری طرف کر دیا تو فضل رضی اللہ عنہ نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر کر عورتوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ ﷺ وادئ محسر میں پہنچے تو سوار کو قدرے تیز کیا، پھر اس درمیانی راستے پر چل پڑے جو بڑے جمرے پر پہنچاتا ہے حتی کہ آپ اس جمرے پر جا پہنچے جو درخت کے قریب ہے۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے۔ وہ کنکریاں اتنی چھوٹی تھیں کہ انگوٹھے اور انگلی سے پکڑ کر پھینکی جا سکیں۔ آپ نے وادی کے نشیب میں کھڑی ہو کر کنکریاں ماریں۔ پھر آپ قربان گاہ تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ (۶۳) اونٹوں کو نحر فرمایا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ کو ( نیزہ) دیا تو باقی اونٹ انہوں نے نحر کیے۔ نبی ﷺ نے انہیں اپنے قربانی کے جانوروں میں شریک کر لیا تھا۔ پھر آپ کے حکم سے ہر اونٹ کی ایک بوٹ لے کر ہنڈیا میں ڈالی گئی اور پکائی گئی۔ دونوں نے یہ گوشت کھایا اور شوربہ پیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ طوافِ افاضہ کے لیے کعبہ کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے ظہر کی نماز مکہ مکرمہ میں ادا کی۔ عبدالمطب کی اولاد کے افراد زمزم پر پانی پلا رہے تھے، چنانچہ آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’عبدالمطلب کے بیٹو! ( کنویں سے) پانی نکالو، اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ پانی پلانے کے معاملے میں تم پر غالب آ جائیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی نکالتا۔‘‘ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک ڈول دیا۔ آپ نے اس سے پانی پیا۔

4 comments:

Unknown said...

v goog
feece b to likho kitni ha ap ki

A.Rehman.wattoo said...

a.rehman.

A.Rehman.wattoo said...

good

A.Rehman.wattoo said...

بہترین بہت اچھا ہے، آپ سے مل کر خوشی ہوئی، امید ہے ملاقات ہوتی رہے، گی اور سنائیں اپنے بارے میں کچھ بتائیںَ۔

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔